اصغر کی کالج میں لڑکیاں بھی بڑھتی تھیں اصغر بہت خوبصورت لڑکا تھا اسکے کلاس کے ایک لڑکے نے
اصغر کو بتایا کہ میں “میرب کو کچھ دن سے دیکھ رہا ہوں وہ آپ کا نام اپنے نوٹ بک پہ لکھتی رہتی ہے” ۔
نہیں یار فراز ! مجھے نہیں لگتا آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوگئی ہوگی مجھے نہیں لگتا کہ وہ میرا نام اپنی نوٹ بک پہ لکھتی ہوگی۔
اصغر آپ کو یقین نہیں آتا نہ “میں کوشش کرونگا کہ مجھے میرب کا
وہ نوٹ بک میرے ہاتھ لگے تو وہ آپ کو دکھا دوں تاکہ آپ کو یقین آئے کہ جھوٹ نہیں بول رہا، آپ بھی کوشش کرنا ہوسکتا ہے وہ نوٹ بک آپ کو ملے ،
اوکے! فراز دیکھتے ہیں۔
کچھ دن گزرنے کے بعد اصغر کلاس میں اکیلے بیٹھا ہوا تھا اور کوئ کتاب پڑھ رہا تھا، میر ب نے دیکھا کہ اصغر کلاس میں اکیلا ہے تو اسکے پاس آکے بیٹھ گئ،
اصغر کو کہا ۔ اصغر! میں کافی عرصے سے آپ کو اکیلے ملنے کی کوشش کر رہی ہوں مگر آپ اپنے دوست فراز کے ساتھ ہوتے ہو یا کلاس والوں کے ساتھ۔
آج تو میری قسمت کی اچھائی ہے کہ آپ اکیلے ملے اگر اجازت ہو توایک دل کی بات آپ کو بتانا چاہ رہی ہوں ۔
جس کو میں نے کئ عرصے سے دل میں چھپا کے رکھی ہے۔
اصغر کو اب یقین آ رہا تھا کہ فراز نے جو کچھ کہا تھا ٹھیک کہا تھا میرب کی دل کی بات وہ بات ہوگی جو فرار کہہ رہا تھا۔
اصغر نے کہا کیا کہنا چاہ رہی ہیں جو اکیلے میں کہنا چاہ رہی ہو، جلدی کہو ورنہ کوئ آجائیگا پھر آپ مجھے اکیلے نہیں دیکھ پاؤگے۔ میرب نے اصغر کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
اصغر! مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ میرے لیے بنے ہو اور میں آپ کےلئے۔
میں جب آپ کو اپنے سامنے دیکھوں تو مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ آپ کلاس میں ہوں تو میری کلاسز بھی اچھے جاتے ہیں ۔
میں نے اپنے دل کو بار بار کہا اور سمجھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا، میرے دل تو آپ کی خیالوں میں گم سم ہے۔
اصغر! مں آپ کو اپنی زندگی میں ہمسفر بنانا چاہتی ہوں۔
میں آپ کو اپنا بنانا چاہتی ہوں ۔ پلیز ! مجھے میرے محبت سے محروم نہیں کرنا آپ کواللہ کی قسم۔اگر اپنے نہ کی تو میں مرجائوں گی
اگر آپ مجھے زندہ دیکھنا چاہتے ہو تو آپ کو اللہ کی قسم مجھے انکار مت کرنا۔
آپ میری پہلی اور آخری محبت ہو۔اصغر میرب کی ساری باتیں خاموشی سے سن رہا تھا اصغر کو بھی میرب کی باتوں میں سچائی نظر آ رہی تھی ۔
اصغر نے کہا میرب! آپ مجھے تھوڑا سا وقت دیں میں سوچ کے آپ کو بتاؤں گا، اسغر ایک ہوشیار لڑکا تھا وہ اتنے بڑے فیصلے کو اتنی جلدی نہیں لے سکتا تھا، کیونکہ وہ جانتا تھا یہ میرب اور اسکی ساری زندگی کا سوال ہے۔
“میرب نے کہا” آپ نے جتنا ٹائم لینا ہے لے لو مگر آپ کا فیصلہ ہاں میں ہونا چاہیے۔ آپ کو میں نے اللہ کی قسم دی ہے یاد کرنا ۔
کالج کے چھٹی کے بعد اصغر راستے میں سوچ رہا رھا کہ میں میرب کو کیاجوآب دوں، میں عشق کے اس کھیل میں پڑ جاؤں گا تو میرے پڑھائی کا کیا ہوگا اور اگر نہ میں جواب دوں تو میرب کے دل کا کیا ہوگا، اسی سوچ میں وہ گھر پہنچا۔
رات کو بھی اسی سوچ مں تھا کہ کیا کروں ، آخر اسکے دل نے میرب کے حق میں فیصلہ سنادی۔
اصغر کے دل نے کہا اصغر! پڑھائی تو بعد کی بات ہے ابھی آپ میرب کا دل کیسے توڑوگے ،
اس نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کے منت کر کرکے اپ کو ہاں مں جواب دینے کے لے اللہ کی قسم دی ہے۔ پڑھائی تو بعد کی بات ہے ابھی آپ بس “ہاں میں جواب دو” ہاں، بس کچھ نہ سوچو آپ کے پڑھائی کو کچھ نھیں ہوگا میرب بھی تو کالج میں آپ کے ساتھ ہے کچھ نہیں ہوگا آپ کی پڑھائی کو آپ بس ہاں کرو ۔
صبح اصغر تیار ہوکے کالج گیااور وہ بہت بے قرار تھا کہ وہ میرب کو اکیلے مل کے اپنی دل کی بات بتائے مگر کالج میں موقع نہ ملنے کی وجہ سے وہ مل نہیں سکے۔
کالج کی چھٹی ہوگئی باہر اصغر نے میرب کو دیکھا تو میرب کے پاس جاکے اسے کہا شکر ہے آپ یہاں ملی کالج میں تو آپ کے دوست آپ کو نہیں چھوڑ رہے تھے ،
اوہ شکر۔
آپ آگئے اصغر میں آپ کو ڈھونڈ رہی تھی ۔
بتاؤ مجھے جلدی آپ نے کیاسوچا ۔
میں ساری رات سو نہیں پائی یہ سوچ کے کہ آپ مجھے کاجواب دینگے کہ نہیں ، اگر دینگے بھی تو کیا جواب دیں گے ۔
اصغر نے ہنستے ہوئے کہا آپ بالکل بھی فکر نہیں کریں میں آپ کو آپ کے محبت سے محروم نہیں کرونگا
یہ فیصلہ میرے لیے مشکل تھا مگر میرے دل نے کہا کہ آپ میرب کا دل کیسے توڑیں گے میرب نے اتنے پیار سے آپ کو اپنا کہا ہے تو آپ اسکا دل مت توڑیں بس ہاں کریں۔ میں
نے بھی دل کی بات مانی ، یہ کہتے ہوئے اصغر نے میرب کے ہاتھوں کواپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا اب اس ہاتھ مرتے دم تک کوئی بھی جدا نہیں کر سکتا آپ کا ہر فیصلہ قبول ہے مجھے ،
میرب اور اصغر پیار محبت کی قسمیں۔ کھاتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔ میرب بہت خوش تھی خوشی سے میر ب کے آنکھوں میں آنسوں آگئے ، میرب کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اصغر نے کہا میں نے بڑی غلطی کی آپ کو کہا آپ تو رو رہی ہو ، میرب کے آنسوں کو اپنے ہاتھ سے صاف کرتے ہوئے کہا اس سے تو اچھا تھا کہ میں آپ کو نہیں بتاتا
میرب نے کہا اصغر آپ پاگل ہو پاگلوں والی باتں کر رہے ہو، یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔
آج میں بہت خوش ہوں ، انہی باتوں میں میرب کا گھر آگیااور میرب اپنے گھر چلی گئی اور اصغر اپنے گھر۔
رات کو اصغر کو نیند نہں آرہی تھی،وہ سوچ رہا تھا کہ اب میرب میرے ساتھ ہے تو مجھے دنیا کا کیاغم، کالج کو مکمل کرنے کے بعد آ گے پڑھنے جائوں گا۔وہ خیالوں کی دنیا میں اپنے اور میرب کی رنگین دنیا بنا رہا تھا
عشق کی دنیا ہی الگ ہے وہ تو عاشق کیلئے نئی دنیا بساتی ہے حقیقت کی دنیا سے بے خبر ایک نئی رنگ برنگی دینا بن جاتی ہے اصغر بھی ایسی دنیا بنا رہا تھا اور اس میں کھو رہا تھا
صبح ہوئ وہ کالج کلئے تیار ہوا کالج کیلئے خوشی سے جانے لگا۔
ادھر میرب بے قرار تھی کہ اصغر آ جائے تو ہم ایک ساتھ کالج جائیں ،
تھوڑی دیر بعد اصغر آیا اور وہ دونوں ایک نئی دنیابناتے ہوئے کالج کی طرف روانہ ہوئے۔
فری ٹائم میں وہ دونوں کالج کے کنٹ نا مںگ بیٹھے باتوں میں لگے رہتے اور اپنے آگے کے زندگی کے بارے میں سوچتے
یہ بات آہستہ آہستہ سے کالج میں پھیل گئ کہ میرب اور اصغر ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ایک دوسرے کوچاہنے لگے ہیں،
یہ بات جب اکبر کو پتا چلا تو اکبر غصے سے لال پیلا ہوگیا ، اس نے کہا یہ کون ہے جو کہتا ہے میرب میرا ہے ، جس نے بھی میرب کو اپنا کہا میں اسے زندہ نہں چھوڑوں گا میرب صرف میرا ہے۔ اصغر کی اتنی ہمت کہ وہ میرے میرب کو اپنا کہے۔
اکبر برا اور گھمنڈی لڑکا تھا اسکے ماں پاپ کے ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار نے اسے بگاڑا تھا ۔
کالج میں اکبر کے چھوٹے بڑے لڑائ جھگڑے ہوتے رہتے تھے، مگر آج اکبر زیادہ غصے میں تھا اور کینٹین آیا، اصغر کواور میرب کو ایک ساتھ دیکھ کر اور زیادہ غصے میں آ گیاوہ اپنے غصے کو کنٹرول کو نہیں کرسکا اس نے آکے اصغر کو زوردار تمانچہ مارا ، اکبر اور اصغر کی جنگ زیادہ ہونے لگی اور بہت سے باتیں ہونے لگیں۔ یہ سب دیکھ کر میرب رونے لگی۔ اس نے اکبر کو منت سماجت کی آپ کو میری قسم آپ چلے جاؤ میری عزت کا تماشا مت بناؤ۔
مرنب کی منت سماجت کے بعد اکبر تو چلا گار ، جاتے ہوئے اصغر کو دھمکی دے کر کہا میں آپ کو دیکھوں گاآپ کی اتنی ہمت میرے میرب کے ساتھ بیٹھو میں آپ کو زندہ نہیں چھوڑونگا آج میرب کی خاطر آپ کو چھوڑ رہا ہوں ۔
میرب رو ررہی تھی اس کے آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے، اصغر نے میرب کے آنسو صاف کیئے ، میرب نے کہا آپ پریشان مت ہوں میں آپ کے ساتھ ہوں ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکتا،ہم جلدی شادی کرکے یہاں سے بہت دور اپنی دنیامیں چلے جائیںگے جہاں میرے اور آپ کے سوا کوئی اور نہیں ہوگا، ہم آج رات ہی گھر والوں سے اپنے رشتے کی بات کرینگے ۔
میرب کو پتا تھا کہ اصغر ان دونوں کیلئے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ اصغر کو اکبر کی وجہ سے کچھ ہو۔ میرب نے کہا مجھے پتا ہے میرے گھر والوں کو ہمارے رشتے سے کوئی اعتراض نہں ہوگا ، آپ اپنے گھر والوں سے بات کرو۔
اکبر ایک ضدی لڑکا تھا وہ جو سوچتا اسے وہ کسی بھی قیمت پر پورا کرتا یہاں تو بات اسکے پسند میرب کی تھی تو وہ کیسے چپ بیٹھتا ۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اصغر کو میرب سے کیسے دور کروں ،
اس کے شیطانی دماغ میں بس یی شیطانی سوچ چل رہا تھا کہ بس کسی بھی طرح چاہے کچھ بھی ہو میں نے اصغر اور میرب کو جدا کرنا ہے۔
وہ ہر دن کالج میں کالج سے باہر اصغر کو دھمکیوں سے ڈراتا تھا کہ تم میرے میرب کو چھوڑ دو ورنہ میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا۔
اصغر دل ہی دل میں کہتااکبر تو کچھ بھی کر میں نے میرب کو مرتے دم تک ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا ہے خود مر سکتا ہوں لیکن میرب کو نہیں چھوڑ سکتا ۔
انہی دنوں میں اصغر کا بھائی شہر سے باہر کسی کام سے گیا ہوا تھا اور ادھر میرب اور اصغر نے سوچ لیاتھا کہ آج شام کو ہم اپنے اپنے گھر میں رشتے کی بات کرینگے۔
اصغر خوشی خوشی گھر آیا تو دیکھا کہ گھر مں ماتم ہے سب رو رہے ہیں اس نے اپنے بھائی کے لاش کو دیکھا اسکا بھائی واپس آتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔اصغر کو بھی اپنے بھائی کےلئے بہت افسوس ہوا اور وہ رشتے کی بات گھر میں نہیں کر سکے ۔
ادھر میرب نے رات کو اپنے گھر والوں سے بات کی اور اسکے گھر والے بہت خوش خوش ہوئے انہوں نے کہا اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہوسکتی ہے آپ دونوں ایک ساتھ پڑھتے ہو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو، اصغر ایک اچھا لڑکا ہے رشتے سے انکار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بس کل آپ اصغر کو کہو اپنے گھر والوں کو ہمارے گھر لیکر آئے۔
میرب بہت زیادہ خوش ہوگئی اسکو لگ رہا تھا اصغر نے اپنے گھر بات کی ہوگی اور وہ بھی مان گئے ہوں گے اب ہمیں کوئی جدا نہیں کر پائے گا اکبر بھی نہیں ، لیکن کہتے ہیں نہ جو اچھا انسان ہوتا ہے اسکے نصیب مںا غم زیادہ ہوتے ہیں جیسے کہ اصغر۔
صبح ہوگئی میرب خوشی خوشی کالج گئ کہ وہ اصغر کو یہ خوشی کی بات بتائے گی۔
لیکن اصغر کالج نہیں آیا تھا وہ آتا بھی کیسے وہ تو وہاں اپنے بھائی کے تعزیت کیلئے بیٹھا تھا۔
میرب نے کالج میں اصغر کو بہت ڈھونڈا مگر اصغر کو نہیں دیکھا اداس ہوا۔ دو چار دن کے بعد میرب نے کالج آنا چھوڑدی۔
پندرہ دن بعد اصغر کالج آیا تو اس نے میرب کو نہیں دیکھا میرب کی چھوٹی بہن کالج میں پڑھتی تھی اس نے میرب کے چھوٹی بہن سے پوچھا میرب نہیں آئ ہے کیا۔
میرب کے بہن نے کہا بھائی وہ نہیں آتی پتہ نہیں کیا ہواہے اسے گھر میں بہت اداس رہتی ہے، اس نے مجھے کہا ہے کہ جب اصغر کالج آئیگا تو مجھے بتانا میں آجاؤں گی۔
آپ آئے ہو تو کل وہ بھی آئیگی۔
دوسرے دن میرب تیار ہوکے کالج جانے لگی راستے میں۔ وہ اصغر سے ملی اور اصغر سے بہت گلے شکوے کیئے کہا آپ کو میرا ذرا بھی خیال نہیں اتنے دن کالج نہیں آئے میرا پوچھا بھی نہیں، میں نے تو گھر میں بات کی ہے رشتے کیلئے سب راضی ہں ، اصغر نے نے کہا یہ تو خوشی کی بات ہے ، سنو میرب آپ کے سارے گلے میرے سر آنکھوں پہ پہلے میری بات تو سنو ، اصغر نے اپنے بھائی کا سارا واقعہ میرب کو سنا دیا میرب نے کہا سوری میں نے انجانے میں آپ کو بہت کچھ کہا پلیز مجھے معاف کرو۔
وہ دونوں باتوں باتوں میں کالج پہنچ گئے دونوں کو ایک ساتھ کالج آتے ہوئے اکبر نے دیکھ لیا اس کو بہت غصہ آیا اس نے اپنے شیطانی دماغ میں سوچ لیا کہ آج اصغر کو اپنے راستے سے ہٹا کے دم لونگا ،
کالج سے چھٹی کے بعد میرب اور اصغر ایک ساتھ گھر جارہے تھے میرب نے دیکھا اکبر کے ہاتھوں میں بندوق ہے اور وہ اصغر کو مارنے کی کوشش کر رہا ہے میرب اصغر کے سامنے آ کے کھڑی ہوئی کہ گولیاں مجھے لگیں اصغر کو کچھ نہ ہو اکبر نے اندھا دھند غصے میں بندوق چلائی اصغر اور میرب دونوں کو بہت سے گولیاں لگیں دونوں بہوہش ہوکے گر گئیں ، ایسے میں اصغر کا دوست فراز آگیا دونوں کو ہسپتال پہنچایا ، مگر افسوس ڈاکٹر کوششوں کے باوجود وہ بچ نہیں سکے۔